"نزدیکیوں کا فاصلہ"
نومان کے لیے پاکیزہ صرف ایک دوست نہیں تھی، وہ اُس کی زندگی کا وہ حصہ تھی جس کے بغیر سب ادھورا لگتا۔ پاکیزہ ہر بار اُس کی باتوں پر ہنستی، اُس کا خیال رکھتی، ہر دکھ میں ساتھ کھڑی ہوتی — لیکن جب بات محبت کی آتی، تو خاموش ہو جاتی۔
نومان نے کئی بار چاہا کہ وہ اپنے دل کی بات کھل کر کہے، مگر اُس نے کبھی پاکیزہ پر زور نہیں دیا۔
وہ جانتا تھا، محبت دباؤ سے نہیں، احساس سے پروان چڑھتی ہے۔
پاکیزہ کے دل میں بھی کچھ تھا — لیکن وہ ڈرتی تھی…
شاید کسی پر مکمل بھروسہ کرنے سے،
شاید ٹوٹ جانے کے خوف سے،
یا شاید اس لیے کہ نومان اتنا خاص تھا کہ وہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔
ایک شام، بارش میں بھیگتے ہوئے دونوں کافی کے کپ ہاتھ میں لیے ایک بنچ پر بیٹھے تھے۔
نومان نے آہستہ سے کہا:
“پاکیزہ، میں تمہیں مکمل طور پر اپنانا چاہتا ہوں… تم جیسی ہو، ویسی۔ نہ بدلی ہوئی، نہ چھپی ہوئی۔”
پاکیزہ نے نظریں جھکا لیں۔ دل جیسے تیز دھڑکنے لگا۔
“میں تم سے دور رہ کر بھی تمہارے قریب محسوس کرتا ہوں، پاکیزہ۔
بس ایک بار، ایک بار کہہ دو کہ تم بھی چاہتی ہو…”
پاکیزہ خاموش رہی۔ لیکن اُس کی آنکھوں میں ایک نمی سی چمک رہی تھی — جو شاید ‘ہاں’ تھی، مگر الفاظ ڈر گئے تھے۔
وہ بولی:
“نومان… میں تمہارے ساتھ بہت خوش رہتی ہوں، تم پر بھروسہ بھی ہے، لیکن… مجھے محبت سے ڈر لگتا ہے۔
اگر کبھی ٹوٹ گئی تو؟
اگر کبھی تم بدل گئے تو؟”
نومان نے مسکرا کر اس کے ہاتھ تھام لیے:
“اگر ٹوٹ گئی، تو میں سنبھالوں گا۔
اگر کبھی بدلا، تو صرف وقت ہوگا… میں نہیں۔”
پاکیزہ نے آنکھیں بند کر لیں — جیسے وقت رک گیا ہو۔
اور وہ جانتی تھی — فاصلہ چاہے کتنا بھی ہو، دل کبھی دور نہیں تھا۔
انجام:
شاید وہ “ہاں” آج نہ آئی ہو، لیکن کبھی کبھی محبتیں مکمل ہونے کے لیے نہیں، بس سچی ہونے کے لیے ہوتی ہیں۔